مہر خبررساں ایجنسی نے النشرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یمنی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحیی سریع نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں سے کہا کہ وہ ان ممالک کو چھوڑ دیں۔
رپورٹ کے مطابق یحییٰ سریع نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا کہ سرمایہ کار بھائی مزید نقصان نہ ہونے کے لیے آپ اپنی سرمایہ کاری ایک جارح ملک سے دوسرے ملک میں منتقل کردیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک میں سرمایہ کاری خطرات سے جڑی ہوئی ہے۔ آپ کے لیے موقع اب بھی موجود ہے۔
خیال رہے کہ قبل از ایں اتوار کے روز بھی یمنی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سریع نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں کام کرنے والی تیل کمپنیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے حالات کو ایڈجسٹ کریں اور ان ممالک سے نکل جائیں جبکہ یہ وارننگ اس وقت تک بدستور برقرار رہے گی جب تک کہ امریکی سعودی جارح ممالک اس جنگ بندی پر کاربند نہ ہوجائیں کہ جو یمنی عوام کو یہ حق دیتی ہے کہ اپنی تیل کی دولت کو یمنی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کریں۔
انہوں نے تاکید کی تھی کہ اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمنی عوام کو ان کے وسائل سے محروم کرنے پر مصر رہے تو خدا کی مدد سے ہماری مسلح افواج ان کو ان کی آمدنی کے ذرائع سے محروم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ یمن میں جنگ بندی اقوام متحدہ کی نگرانی میں 2 اپریل سے 2 ماہ کے لیے کی گئی تھی جس کے بعد اس میں دو مرتبہ توسیع کی گئی اور یہ اتوار 2 اکتوبر کو ختم ہو گئی ہے۔ گذشتہ بدھ کو یمن کے امور کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے "ہانس گرنڈبرگ" نے صنعا کے دورے کے دوران انصار اللہ کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ یہ دورہ معینہ نتائج کا اعلان کیے بغیر ختم ہوا۔
اس سے قبل یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے یمن کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی ہانس گرنڈ برگ اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر زور دیا تھا کہ سرکاری ملازمین اور ریٹائر ہونے والوں کی تنخواہوں کی ادائیگی ایک بنیادی مطالبہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہم جنگ بندی میں توسیع پر راضی نہیں ہوں گے اور حالات میں بہتری کے بغیر جنگ بندی کے لیے ہمارے معاہدے کا مطلب یمنی قوم کے خلاف محاصرے اور جنگ جاری رکھنے پر اتفاق ہے۔ یمنی عوام کے خلاف محاصرے کے نتیجے میں ہونے والا ظلم عام انسانی مطالبات کے مقابلے میں بہت بڑا ہے۔
اسی طرح یمن کی قومی حکومت کے وزیر خارجہ ہشام شرف عبداللہ نے اقوام متحدہ کے ایلچی سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ صنعا میں یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے موقف میں کوئی ابہام نہیں ہے اور صنعاء کے مطالبات کو پیشگی شرط نہیں کہا جا سکتا، لیکن یہ مطالبات ہیومنیٹیرین اور انسانی ہیں اگر دوسرا فریق پرامن اور مستحکم سیاسی تصفیے کے حصول کے لیے فوجی جارحیت کے خاتمے اور محاصرہ ہٹانے میں سنجیدہ ہے تو اس پر کوئی تنازعہ یا مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔
آپ کا تبصرہ